March 22, 2013

”میرا حالِ سفر“
از محمد احسن…

یہ سن 2008ء کی بات ہے۔ میں نیا نیا انگلستان سے اپنی تعلیم مکمل کر کے پاکستان پہنچا تھا۔ موسم کی تبدیلی کے باعث کچھ دِن بیمار رہا پھر صحت یاب ہونے کے بعد کسی معقول ملازمت کی تلاش میں جُت گیا۔ میرا خیال تھا کہ مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ کافی پاپڑ بیلنے پڑ گئے تب جا کر اسلام آباد کے ایک دُور دراز علاقے میں مجھے ایک سافٹ ویئر کمپنی میں ملازمت ملی۔ یہ جی الیون کا علاقہ تھا اور اُس وقت تقریباً اسلام آباد کا آخری کونہ تھا۔ یہ علاقہ میرے گھر سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ چونکہ ملازمت کافی مشکلوں سے ملی تھی اس لیے اسی کو غنیمت جانا اور اللہ توکل کر لیا۔ دِن گزرتے گئے اور مجھے بھی اس کی عادت ہو گئی۔

ملازمت شروع کیے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ میں نے اپنے اندر ایک نامعلوم سی کیفیت کو محسوس کیا جو دن بدن بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ہمارے آفس کے برآمدے میں ایک بڑی کھڑکی تھی جہاں سے جنوبی اسلام آباد کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ اپنی بریک کے وقت میں یہاں پر آ جاتا اور پورا ایک گھنٹہ بیرونِ کھڑکی مناظر میں کھویا رہتا۔ کبھی بارش ہو رہی ہوتی تو کبھی موسم ویسے ہی ابرآلُود ہوتا۔ مجھے یہاں کھڑے رہنے کی عادت پڑتی جا رہی تھی۔ اتفاق سے اُن دنوں لوڈ شیڈنگ نے کافی مسؑلہ ڈالا ہوا تھا اور ہمارے آفس میں ابھی تک یو پی ایس یا جنریٹر نہیں تھے۔ میں وہ وقت بھی کھڑکی کے پاس گزارتا تھا کیونکہ بغیر بجلی کم از کم ایک سافٹ ویئر کمپنی نہیں چل سکتی۔ یہ اُنہیں تاریک ساعتوں کی بات ہے جو میرے لیے پُرنُور ثابت ہوئیں۔

ایک دِن میں نے محسوس کیا کہ اُس منظر میں ایک پہاڑی موجود ہے اور اُس کی چوٹی پر دو تین بڑی بڑی قبریں دکھائی دے رہی ہیں جن پر سبز رنگ کی چادریں پڑی ہوئی ہیں۔ ایک قبر کے وسط میں سے بلند و بالا درخت نکلا ہوا تھا اور اُس کا حجم پہاڑی سے بھی بڑھا ہوا تھا۔ اُن قبروں کے پاس مجھے ایک مزار بھی دِکھائی دے رہا تھا۔ چونکہ یہ مزار اُس درخت کے پیچھے چھپا ہوا تھا اس لیے کچھ عرصہ تو نظر ہی نہ آیا تھا۔

میں اس مزار کو بالکل نہیں جانتا تھا۔ اس سے پہلے میں اپنے والدین کے ساتھ راولپنڈی اور اسلام آباد کے کئی مشہور مزارات پر اکثر جایا کرتا تھا مگر پاکستان میں تو بہت مزارات ہیں۔ اِس خطہؑ زمین پر اتنے اولیاء اللہ اور اصحابِ ولایت گزرے ہیں کہ ہر مزار پر جانا ممکن ہی نہیں۔ تقریباً اُتنی ہی تعداد اُن اصحابِ ولایت کی بھی ہے جن کے مزارات بھی نہیں ہیں۔ اللہ نے اِس سرزمین کو بہت زرخیز بنایا ہے۔ روحانیت کی کئی فصلیں یہاں پنپتی ہیں اور کمال کو پہنچتی ہیں۔ خدا ہمیں اپنی سرزمین کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کمال عطا فرمائے۔ میری موؑخرُ الذکر دعا قبول ہونے والی تھی۔ 

میں کافی کافی وقت اُس بڑے درخت اور ایک بڑی قبر پر نظریں جمائے رہتا۔ نظریں جمانے کے تھوڑی دیر بعد سکون کی کیفیت طاری ہونا شروع ہو جاتی تھی۔ گھر جا کر بھی اُس منظر کو یاد کرتا، اور وہی سکون پھر طاری ہو جاتا۔ جدید سائنس کہتی ہے کہ انسانی دماغ آنکھوں کے ذریعے منظر دیکھنے یا یاداشت کے ذریعے منظر کو یاد کرنے کو ایک جیسا خیال کرتا ہے۔ یہی مراقبہ کی افادیت کا جواز بھی ہے۔ بہرحال، ایک دِن میرے دِل میں اُٹھا کہ یار تم بھی کمال کے آدمی ہو، دیکھتے رہتے ہو، اُدھر چلے ہی کیوں نہیں جاتے۔ یہ خیال آنا تھا کہ میں واقعی اُدھر ہی کو چل پڑا… اصل میں کمال کا آدمی بننے کے لیے۔

کشمیر ہائی وے سے متصل دربار چوک سے ایک کچی سڑک سیدھا اُوپر کی طرف جاتی ہے جس کے آخر میں پہاڑی کی چوٹی بھی ہے اور مزار بھی۔ میں چلتا گیا۔ مجھے راستے میں ایک بورڈ نظر آ گیا جِس سے مجھے اُن صاحبِ مزار کا نام پتہ لگ گیا، ”حضرت سید اصغر علی شاہ چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ“۔ اِس نام کو پڑھ کر میں آگے بڑھا اور مزار کے اندر چلا گیا۔ یہاں میں نے اپنے آپ کو اکیلا پایا۔ کچھ روحانی کیفیت طاری ہوئی، کچھ ڈر بھی لگا۔ بہرحال فاتحہ وغیرہ پڑھی تو دِل کو سکون پہنچا۔ اس مزار کے اندر سے ہی پورا اسلام آباد نظر میں آ جاتا ہے… اور انہی مزارات کے اندر سے اصل اسلام کا منظر بھی نظر آتا ہے، بس وہ آنکھ چاہیے۔

یہاں کھڑے ہوئے ویسے ہی میں صاحبِ مزار سے مخاطب ہوا کہ حضرت ذکریہ علیہ السلام نے حضرت بی بی مریم علیہ السلام کے حجرے میں بے موسم پھل دیکھے تو رب سے فریاد کی کہ اِس مقام کی برکت سے مجھے نیک اولاد عطا فرمائی جائے… تو میں حضرت ذکریہ علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اللہ سے اِس مقام کی برکت سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں… مجھے چھوٹی موٹی ولایت دے دیجیے۔

یہ دعا پڑھ کر میں ابھی مزار سے نکلا ہی تھا کہ اپنے الفاظ پر غور کرنے لگ گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں نے کچھ زیادہ ہی بڑی چیز مانگ لی ہے۔ میں نے اپنی دعا میں فوراً ترمیم کی کہ یا خدا مجھے کسی صاحبِ ولایت کی محفل کے باہر جوتیوں پر ہی جگہ دے دے۔ یہ دعا مجھے زیادہ بہتر لگی، حالانکہ اوقات اس کی بھی نہیں ہے۔ چلتے چلتے میں واپس اپنی بڑی کھڑکی میں آ گیا اور دوبارہ اس منظر میں کھو گیا۔ یک دم مجھے محسوس ہوا کہ میرے اوپر ایک سبز رنگ کی چادر گری ہے اور مجھے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ جب واپس حواس بحال ہوئے تو کوئی چادر نام کی چیز وہاں موجود نہ تھی۔

شام کو جب گھر کی طرف چلنے لگا تو مزار کے قریب والی سڑک سے ہوتا ہوا ایچ ایٹ کے قبرستان کی جانب بڑھ گیا۔ یہی میرا راستہ تھا۔ مگر اُس شام قبرستان کے گیٹ نمبر تین کے قریب سے گزرتے ہوئے خیال آیا کہ کیوں نہ قدرت اللہ شہاب صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھی جائے۔ میں نے اپنی گاڑی اندر داخل کر دی۔ یہاں پھولوں کی ایک دوکان تھی۔ میں نے وہاں بیٹھے ہوئے ایک صاحب سے قدرت اللہ شہاب صاحب کی قبر کے متعلق دریافت کیا تو پتہ چلا کہ وہ گیٹ نمبر دو کے قریب ہے۔ میں نے اُس سے ایک کلو گلاب کی پتیاں لیں اور بتائے ہوئے مقام کی جانب چل دیا۔ چونکہ یہ جنوری کا مہینہ تھا، ہر طرف جھاڑیاں ہی جھاڑیاں اور سوکھے درخت تھے۔ مجھے دور سے ایک ایسی قبر کا گمان ہوا جو سرسبز تھی۔ یہی قدرت صاحب کی قبر تھی۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ اس موسم میں یہ اتنی سرسبز کیوں ہے۔ میں نے وہ ساری گلاب کی پتیاں قبر بُرد کر دیں اور فاتحہ پڑھی۔ کچھ دیر میں مجھے اپنے دل میں اِک زرخیزی سی محسوس ہوئی۔ پھر میں گھر آ گیا۔

اُس رات جو سویا تو دیکھتا ہوں کہ ایچ ایٹ کے قبرستان میں ہر طرف دور دور تک پھولوں کی پتیاں ہیں اور ہوا میں بھی اُڑ رہی ہیں۔ وہاں قدرت صاحب کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو فرمایا ”بیٹا پھولوں کا شکریہ۔ میں نے تمام اہلِ قبرستان میں انہیں تقسیم کر دیا ہے۔ آؤ نماز پڑھ لیں پھر بات کرتے ہیں۔“ ہم قریبی سبز گنبد والی چھوٹی سی مسجد کی طرف چل دیے اور اپنی اپنی نماز ادا کی۔ اُس کے بعد انہوں نے فرمایا ”آپ نے کل ہمارے ایک ہمنشیں کی معیت میں ایک دعا مانگی تھی۔ آپ ایسا کریں کہ آپ کے گھر میں موجود اپنی لائبریری میں جائیے گا اور ایک کتاب، حالِ سفر، ڈھونڈیے گا اور اُس کو دوبارہ پڑھیے گا۔“ اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔

دوسرے دِن صبح آفس جانے سے پہلے میں اپنی لائبریری میں گیا تو واقعی مجھے گولڈن سرورق کی حالِ سفر مِل گئی۔ اُس وقت میں ماضی میں کھو گیا۔

سن 1992ء کی بات ہے۔ مشہور تحریک ”دعوتِ اسلامی“ کے ایک عہدہ دار کے بتانے پر میں، میری امی جی، اور بابا جہلم چلے گئے اور جی ٹی روڈ سے متصل گلاس فیکٹری کے قریب واقع ایک مسجد میں ایک بزرگ نما شخصیت سے ملے۔ ان کا نام حضرت باغ حسین کمال رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ پہلے پہل تو مجھے وہ بزرگ لگے ہی نہیں۔ وہ تو عوامی سے انسان تھے۔ وہاں اںہوں نے مراقبات کی ایک محفل سجائی۔ بالکل خاموشی تھی۔ کوئی وعظ نہیں، کوئی لیکچر نہیں، کوئی دینیات نہیں… بس اِک بے نام سی خاموشی۔ کم عمر ہونے کے باعث مجھے تو سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ بابا نے بعد میں امی جی سے کہا کہ عجیب معاملات ہیں۔ محفل میں بیٹھے ہوئے کئی لوگ عمرہ کر آئے، کئی لوگ مسجدِ نبوی شریف صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری سے فیضیاب ہوئے۔ کئیوں نے ماضی کے صالحین سے ملاقات کی۔ کئی انبیاء کرام سے مل آئے۔ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا اور کیسے ہو رہا ہے۔

وہاں ہمیں ایک کتاب عنایت کی گئی جس کا نام ”حالِ سفر“ تھا۔ ہم سب نے وہ کتاب پڑھی تو مزید حیرانی ہوئی۔ کتاب کا عنوان مصنف کے مطابق حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے تجویز کیا تھا۔ مطلب یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کتاب کی پروف ریڈنگ میں مدد کی۔ اس کتاب میں کئی پیشین گوئیاں تھیں جو کتاب کے وقتِ اشاعت نہایت مضحکہ انگیز بھی تھیں۔ مثلاً روس کے افغانستان سے بہت جلد نکل جانے کا ذکر تھا۔ یہ ویسی ہی بات ہے کہ آج کوئی دعویٰ کرے کہ وہ امریکہ کو جنوبی ایشیاء سے نکال باہر کرنے والا ہے۔ مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ روس تو افغانستان اور پھر اُس کے بعد پاکستان میں بیٹھنے کے لیے آیا تھا، اُس کو نکلنا پڑ گیا۔ وقت اور زمانے کو تسلی بخش طریقے سے گڈ مڈ کیا ہوا تھا۔

میں تو وہ کتاب سرسری طور پر پڑھ کر بھول بھی گیا تھا۔ اب اتنے عرصے کے بعد مجھے وہی کتاب دوبارہ پڑھنے کو کہا گیا تھا۔ میں نے جب وہ کتاب دوبارہ پڑھی تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے کہ یہ کیا معاملات ہیں۔ یہ کتاب اتنا عرصہ ہماری لائبریری میں پڑی رہی اور مجھے کُلی طور پر بھولی ہوئی تھی۔ شاید کچھ کتابیں عمر کے کسی خاص موڑ پر جا کر سمجھ میں آنے والی ہوتی ہیں… بعض دفعہ قدرت انتظار کراتی ہے، اور پھر کسی قدرت سے ملا بھی دیتی ہے۔

یہ کتاب پڑھنے میں بالکل بھی مشکل نہیں تھی حالانکہ سمجھنے میں کئی اہلِ علم و قلم کو مات دے دے۔ مگر شاید ایسی کتب کو سمجھنے کے لیے کسی کے فیض کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد تو پھر میری حالت ناقابلِ بیان تھی۔ دِل کر رہا تھا کہ میں اُڑ کر جہلم پہنچ جاؤں۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ میں اگلے اتوار اپنی اور اپنی ہمشیرہ کی فیملی کے ہمراہ جہلم پہنچ گیا۔ اب مجھے ہر بات یاد آ رہی تھی۔ میں نے قریباً 16 سال کے بعد اس جگہ دوبارہ قدم رکھا تھا۔ یہ ظہر کی نماز سے تھوڑی دیر بعد کی بات ہے۔ مسجد میں چند افراد کے علاوہ ہم نے کسی اور کو نہ پایا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ سب لوگ کہاں چلے گئے۔ مسجد کے پیش امام صاحب نے جو ایک خبر سنائی تو میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی، ”حضرت صاحب کا تو سن 2000ء میں وصال ہو گیا تھا۔ اُن کا مزار چکوال میں موجود ہے۔ آپ تحصیل چوک میں پہنچ کر پنوال گاؤں کا راستہ پوچھ لیجیے گا۔“

میرے بہنوئی جو اُس وقت گاڑی چلا رہے تھے، پاکستان کے بیشتر راستوں کو جانتے تھے۔ حالانکہ وہ مزارات وغیرہ پر نہیں جاتے تھے مگر پھر بھی وہ ہمیں حضرت صاحب کے مزار پر لے جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ اُن کی مہربانی ہے۔ بالآخر ہم پنوال شریف پہنچ گئے اور صاحبزادہ مراد کمال صاحب سے ملے… جو ہوبہُو حضرت صاحب کی طرح محسوس ہوئے۔ کسی نے کہا ہے کہ معلم طالبِ علم کو علم نہیں سکھاتا، خُود اُس میں منتقل ہو جاتا ہے اور طالبِ علم کو معدوم بنا دیتا ہے… مراد کمال صاحب سے مل کر یہ نظریہ صحیح ثابت ہو جاتا ہے۔ اُن کی معیت میں ہم حضرت صاحب کی آرامگاہ کی جانب بڑھے جو ایک بڑے سے میدان کے وسط میں ایک مزار کی صورت میں موجود تھی۔ اندر داخل ہوتے ہوئے مجھے حضرت غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آرامگاہ کا گمان ہوا… یہ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت کے باعث تھا، میں نے سوچا۔ پتہ نہیں کیوں وہاں بیٹھ کر آہستہ آہستہ اُن کے وصال کا غم میرے دل سے اُتر گیا… واقعی اولیاء اللہ تو ہم سے بھی زیادہ زندہ اور بااختیار ہیں۔ یہ ہم زندوں کی کج نظری ہے کہ ہم دیکھ نہیں پاتے… تو پھر غم کیسا؟

اس طرح حضرت باغ حسین کمال رحمۃ اللہ علیہ سے میرا دوبارہ رابطہ ہوا۔ ایک دو دن کے بعد بیرونِ مُلک سے میرے والد صاحب کا فون آیا تو میں نے فون پر اُنہیں ساری تفصیل سنائی… اُدھر وہ مدہوش ہوئے… اور اِدھر اویس مصطفیٰ صاحب مدہوش ہوئے جو میرے برابر میں کھڑے ہوئے، میری بات سُن رہے تھے۔

اویس بھائی نے اس سارے واقعے سے کچھ عرصہ قبل ہماری کمپنی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ کلین شیو پیارے سے انسان تھے۔ اپنے کام میں کافی محنتی ثابت ہوئے۔ میرے ساتھ کام کرتے تھے، میں تو جانتا ہی تھا۔ مگر وہ جب سے مدہوش ہوئے ہیں، داڑھی رکھ لی ہے… اور میرے خیال میں اُن کی خماری ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ بہرحال ایک حالِ سفر کتاب میں نے اُن کو پڑھنے کے لیے دے دی۔ وہ دِن اور آج کا دِن، اویس بھائی ”صاحبِ کمال“ ہو گئے ہیں۔ کچھ تو نجیبُ الطرفین سید ہونے کی وجہ سے، اور کچھ زرخیز قلب ہونے کے باعث انہوں نے بہت مقامات حاصل کیے ہیں۔ وہ کہاں تک پہنچے ہیں؟ یہ تو خدا جانے یا حضرت صاحب جانیں، یا وہ خود جانیں۔ اُسی زرخیزی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے دار الفیضان کی ویب سائیٹ بنائی اور مجھے بھی اُس کے ڈیزائن میں خدمت کا تھوڑا سا موقع دیا۔

خدا عجیب چیز ہے… اپنے ایک ادنیٰ سے بندے کو راستہ دکھانے کے لیے کسی دوسرے کو قطبِ دوراں بھی بنا دیتا ہے۔ میری تو خیر اوقات نہیں، ہاں مگر شاید خدا نے اویس بھائی کو راستہ دکھانے کے لیے مجھے استعمال کیا ہو… خدائی معاملات خدا ہی جانے۔

میری دعا ہے کہ حضرت باغ حسین رحمۃ اللہ علیہ کا فیضان، اور دارالفیضان، تاقیامت ایسے ہی چلتا رہے… کہ ہمیں ایسے فیض کی سخت ضرورت ہے مگر شیطان یہ بات ہمیں سمجھنے نہیں دیتا۔ یہ شیطان ہمیں یہ تعلیم دینا چاہتا ہے کہ گھر پر کتابیں لے آؤ اور خود ہی پڑھ کر ڈاکٹر بن جاؤ۔ ظاہر ہے دنیاوی تعلیم کے متعلق تو ہم شیطان کے چنگل میں نہیں آتے، ہاں مگر دین کے معاملات میں ہم پکڑے جاتے ہیں اور معلم و مرشد کی اہمیت سے انکار کر دیتے ہیں۔

طالبِ دعا و طالب کمال…

محمد احسن، مصنف ”کائنات“

ahsan119@hotmail.com